منگل، 13 جون، 2017

غزوہ بدر، 17 رمضان مسلمانوں کی پہلی عظیم فتح



سترہ رمضان غزوہ  بدر کی یاد تازہ کرتا ہے، جب مسلمانوں کو کفار کے مقابلے میں پہلی عظیم فتح نصیب ہوئی۔
سنہ تین ھجری سترہ رمضان المبارک مقام بدر میں تاریخ اسلام کا وہ یادگار دن ہے، جب اسلام اور کفر کے درمیان پہلی فیصلہ کن جنگ لڑی گئی، جس میں کفار قریش کی طاقت کا گھمنڈ خاک میں مل گیا۔
غزوہ بدر کو دیگر غزوات پر کئی اعتبار سے فوقیت حاصل ہے۔ اسے کفر و اسلام کا پہلا معرکہ ہونے شرف حاصل ہے۔ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ بدر کو ایک فیصلہ کن معرکہ قرار دیا اور قرآن مجید نے اسے یوم الفرقان سے تعبیر کرکے اس کی اہمیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔
فرمایا ” جو ہم نے اپنے( برگزیدہ) بندے پر ( حق وباطل کے درمیان) فیصلے کے دن نازل فرمائی وہ دن (جب بدر میں مومنوں اور کافروں کے) دونوں لشکر باہم متصادم ہوئے تھے۔” (سورہ الانفال)
تیرہ سال تک کفار مکہ نے محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے مگر مسلمانوں کا جذبہ ایمانی کم نہ ہوا، ان کا خیال تھا کہ مُٹھی بھر یہ بے سرو سامان ‘سر پھرے’ بھلا ان کی جنگی طاقت کے سامنے کیسے ٹھہر سکتے ہیں، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور آخرکار غزوہ بدر ہوا۔
صرف تین سو تیرہ مسلمانوں نے کفار کے دو گنے لشکر سے مقابلہ کیا اورایسی فتح پائی کہ اسلام کا بول بالا ہوگیا۔
بدر معرکہ میں کفار کے تقریبا ًستر(70 ) آدمی قتل ہوئے اور70 افراد کو قیدی بنادیا گیا اور کفار کے وہ سردار جو شجاعت و بہادری میں بے مثال سمجھے جاتے تھے اور جن پر کفار مکہ کو بڑا ناز تھا، وہ سب کے سب مسلمان مجاہدوں کے ہاتھوں مقتول ہو کر دوزخ کا ایندھن بن گئے اور جو کافر زندہ رہ گئے، وہ میدان چھوڑ کر ایسے بھاگے کہ پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا اور سیدھا مکہ میں اپنے گھروں میں جاکر دم لیا۔
لشکر اسلام میں سے صرف 14خوش نصیب سر فروش مجاہدں نے شہادت کا عظیم منصب حاصل کیا اور جنت الفردوس میں داخل ہوگئے، جن میں سے چھ (6) مہاجرین اور آٹھ (8) انصار تھے
اس دن حضور ﷺ نے یہ دعا فرمائی تھی۔
’’اے اﷲ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ اپنا وعدہ اور اقرار پورا کر، یا اﷲ! اگر تیری مرضی یہی ہے (کہ کافر غالب ہوں) تو پھر زمین میں تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا‘‘۔
اسی لمحے رب کائنات نے فرشتوں کو وحی دے کر بھیجا:’’میں تمھارے ساتھ ہوں، تم اہل ایمان کے قدم جماؤ، میں کافروں کے دل میں رعب ڈال دوں گا، سنو! تم گردنوں پر مارو (قتل) اور ان کی پور پور پر مارو۔‘‘ (سورۂ انفال آیت 12)۔
مقام بدر میں لڑی جانے والی اس فیصلہ کن جنگ نے یہ ثابت کیا کہ مسلمان نہ صرف ایک قوم بلکہ مضبوط اور طاقتور فوج رکھنے کے ساتھ بہترین نیزہ باز، گھڑ سوار اور دشمن کے وار کو ناکام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں
امر واقعہ یہ ہے کہ جنگ بدر اسلام کے فلسفہ جہاد نقطہ آغاز ہے۔ یہ وہ اولین معرکہ ہے جس میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے والے جنت میں داخل ہونے میں بھی پہل کرنے والے ہیں، قرآنِ پاک کی کئی آیات اور احادیث مبارکہ غزوہ بدر میں حصہ لینے والوں کی عظمت پر دلالت کرتی ہیں۔
غزوہ بدر کو چودہ سو سال گذر چکے ہیں لیکن اس کی یاد آج کے گئے گذرے مسلمانوں کے ایمان کو بھی تازہ کر دیتی ہے، صدیوں بعد آج بھی مقام بدر کفار مکہ شکست فاش اور مسلمانوں کی فتح و کامرانی کی گواہی دیتا ہے۔ مقام بدر کے آس پاس رہائش پذیر شہریوں کو اس مقام کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کا ادراک ہے۔

اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں