جمعہ، 16 جون، 2017

گندے اور آلودہ پانی سے بنائی گئی قلفیاں

کیا آپ نے کبھی تصور کیا ہے کہ آلودہ پانی کو پینا کیسا ہے؟
گندا اور آلودہ پانی کوئی بھی نہیں پینا چاہتا، لیکن دنیا میں کئی کروڑ افراد اس پانی کو جانتے بوجھتے پینے پر مجبور ہیں، کیونکہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔
پینے کے لیے صاف پانی کی اسی کمیابی کو اجاگر کرنے کے لیے کچھ طلبا نے ایک انوکھے پروجیکٹ پر کام کرتے ہوئے گندے پانی سے قلفیاں بنا ڈالیں، جو دیکھنے میں تو شاید اتنی عجیب نہ لگتی ہوں، لیکن ان کا ایک لقمہ آپ کو موت کے منہ میں پہنچا سکتا ہے۔
تائیوان کے ایک اسکول کے طلبا کی جانب سے بنائے جانے والے اس پروجیکٹ کے لیے طلبا نے شہر کے 100 مقامات سے پانی جمع کیا۔
پریشان کن بات یہ تھی کہ یہ پانی شہریوں کو پینے کے لیے فراہم کیا جاتا تھا۔
اس پانی سے بننے والی قلفیوں میں پلاسٹک کی اشیا، کچرا اور مختلف اجزا واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔ کچھ قلفیاں مختلف رنگوں کی بھی ہیں جو دراصل پانی کے نہایت ہی آلودہ اور زہریلا ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں۔
کچھ قلفیوں میں سیوریج کا پانی بھی شامل ہے۔
آلودہ پانی کی یہ صورتحال صرف غیر ترقی یافتہ افریقی ممالک میں ہی نہیں، بلکہ معاشی حب سمجھے جانے والے کئی ترقی یافتہ شہروں میں بھی ہے۔
پانی کی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ انسانی فضلہ کی پینے کے پانی میں ملاوٹ ہے۔ علاوہ ازیں پینے کے پانی کے ذخائر میں فیکٹریوں کا زہریلا فضلہ اور کیمیائی مادے شامل ہوجانا بھی عام بات ہے جو شہریوں کو بے شمار بیماریوں میں مبتلا کردیتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل عالمی ادارہ صحت نے ایک تشویش ناک رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے 2 ارب افراد کے پینے کا پانی انسانی فضلے سے آلودہ ہے۔
ادارے کے شعبہ عوامی صحت کی سربراہ ماریہ نیرا کا کہنا ہے کہ انسانی فضلے سے آلودہ یہ پانی لوگوں کو ہیضہ، پیچش، ٹائیفائڈ اور پولیو میں مبتلا کر رہا ہے اور ہزاروں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پینے کے لیے بالکل ناقابل استعمال اس پانی سے ہر سال 5 لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔
اس سے قبل بھی اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں متنبہ کیا گیا تھا کہ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا میں آبی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث 300 کروڑ افراد کو صحت کے سنگین مسائل لاحق ہوسکتے ہیں۔

اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
Print Friendly
                                                                  arynews.tv:بشکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں